You are reading a tafsir for the group of verses 12:99 to 12:100
فَلَمَّا
دَخَلُوْا
عَلٰی
یُوْسُفَ
اٰوٰۤی
اِلَیْهِ
اَبَوَیْهِ
وَقَالَ
ادْخُلُوْا
مِصْرَ
اِنْ
شَآءَ
اللّٰهُ
اٰمِنِیْنَ
۟ؕ
وَرَفَعَ
اَبَوَیْهِ
عَلَی
الْعَرْشِ
وَخَرُّوْا
لَهٗ
سُجَّدًا ۚ
وَقَالَ
یٰۤاَبَتِ
هٰذَا
تَاْوِیْلُ
رُءْیَایَ
مِنْ
قَبْلُ ؗ
قَدْ
جَعَلَهَا
رَبِّیْ
حَقًّا ؕ
وَقَدْ
اَحْسَنَ
بِیْۤ
اِذْ
اَخْرَجَنِیْ
مِنَ
السِّجْنِ
وَجَآءَ
بِكُمْ
مِّنَ
الْبَدْوِ
مِنْ
بَعْدِ
اَنْ
نَّزَغَ
الشَّیْطٰنُ
بَیْنِیْ
وَبَیْنَ
اِخْوَتِیْ ؕ
اِنَّ
رَبِّیْ
لَطِیْفٌ
لِّمَا
یَشَآءُ ؕ
اِنَّهٗ
هُوَ
الْعَلِیْمُ
الْحَكِیْمُ
۟
3

یہاں تخت سے مراد تخت شاہی نہیں ہے بلکہ وہ تخت ہے جس پر حضرت یوسف اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔ سجدہ سے مراد بھی معروف سجدہ نہيں بلکہ رکوع کے انداز پر جھکنا ہے۔ کسی بڑے کی تعظیم کے لیے اس انداز میں جھکنا قدیم زمانہ میں بہت معروف تھا۔

’’إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ‘‘ کامطلب یہ ہے کہ میرا رب جس کام کو کرنا چاہے اس کے لیے وہ نہایت مخفی راہیں نکال لیتاہے۔ خدا اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایسی تدبیریں پیدا کرلیتا ہے جس کی طرف عام انسانوں کا گمان بھی نہیں جاسکتا۔