You are reading a tafsir for the group of verses 12:94 to 12:98
وَلَمَّا
فَصَلَتِ
الْعِیْرُ
قَالَ
اَبُوْهُمْ
اِنِّیْ
لَاَجِدُ
رِیْحَ
یُوْسُفَ
لَوْلَاۤ
اَنْ
تُفَنِّدُوْنِ
۟
قَالُوْا
تَاللّٰهِ
اِنَّكَ
لَفِیْ
ضَلٰلِكَ
الْقَدِیْمِ
۟
فَلَمَّاۤ
اَنْ
جَآءَ
الْبَشِیْرُ
اَلْقٰىهُ
عَلٰی
وَجْهِهٖ
فَارْتَدَّ
بَصِیْرًا ۚ
قَالَ
اَلَمْ
اَقُلْ
لَّكُمْ ۙۚ
اِنِّیْۤ
اَعْلَمُ
مِنَ
اللّٰهِ
مَا
لَا
تَعْلَمُوْنَ
۟
قَالُوْا
یٰۤاَبَانَا
اسْتَغْفِرْ
لَنَا
ذُنُوْبَنَاۤ
اِنَّا
كُنَّا
خٰطِـِٕیْنَ
۟
قَالَ
سَوْفَ
اَسْتَغْفِرُ
لَكُمْ
رَبِّیْ ؕ
اِنَّهٗ
هُوَ
الْغَفُوْرُ
الرَّحِیْمُ
۟
3

حضرت یوسف اپنے باپ سے جدا ہو کر 20 سال سے زیادہ مدّت تک پڑوسی ملک مصر میں رہے۔ مگر حضرت یعقوب کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ آخر وقت میں آپ کا پیرہن مصر سے چلا تو آپ کو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا علم ان کا ذاتی علم نہیں ہوتا بلکہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے۔ اگر ذاتی علم ہوتا تو حضرت یعقوب پہلے ہی جان لیتے کہ ان کے صاحب زادے مصر میں ہیں۔ مگر ایسا نہیںہوا۔ آپ حضرت یوسف کے بارے میں صرف اس وقت مطلع ہوئے جب کہ اللہ نے آپ کو اس کی خبر دی۔

حضرت یعقوب کے ساتھ آپ کے خاندان والوں کی گفتگوئیں جو اس سورہ میں مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی نظر میں حضرت یعقوب کووہ عظمت حاصل نہ تھی جو ایک پیغمبر کے لیے ہونی چاہیے۔ وہی لوگ جو ماضی کے بزرگوں کی پرستش کررہے ہوتے ہیں وہ زندہ بزرگوں کی عظمت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مُردہ بزرگوں کے گرد ہمیشہ مبالغہ آمیز قصوں اور طلسماتی کہانیوں کا ہالہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ’’بزرگ‘‘ کی ایک مصنوعی تصویر بیٹھ جاتی ہے۔ چونکہ زندہ بزرگ اس مصنوعی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگوں کو بزرگ بھی نظر نہیں آتا۔