اب دوسری جانب کنعان کے منظر میں بھی غیر متوقع انکشافات ہو رہے ہیں اور کنعان کے مناظر اب یوسف (علیہ السلام) کے اس خواب کی آخری تعبیر پر ختم ہوتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا۔
آیت نمبر 94 تا 95
یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو ! یہ کیا کہہ رہے ہیں ، کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس قدر طویل عرصہ کے بعد بھی یوسف (علیہ السلام) زندہ ہوگا اور یہ بوڑھا اس کی بو سونگھ رہا ہوگا !۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے میں یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو پارہا ہوں اگر تم میرا مذاق نہ اڑاؤ، درحقیقت میں یہ خوشبو پا رہا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ ادھر مصر سے قافلہ چلا ، ادھر کنعان میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بو پا رہے ہیں۔ یہ کیونکر ہوگیا ، کیا یہ قافلہ مصر سے چلا تو ان کو بو آنے لگی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ قافلہ مصر سے چلا اور انہوں نے بو کو سونگھ لیا۔ اس قدر دور سے۔ لیکن آیت میں مصر کی تصریح نہیں ہے ، ہو سکتا ہے کہ قافلہ کنعان کے قریب کسی دورا ہے سے جب جدا ہوا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مقام رہائش کے قریب انہیں یہ خوشبو آگئی ہو۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مصر کی دوری سے بطور معجزہ اس بو کو محسوس کرنے کو معبد سمجھتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ یہ معجزہ ہوا ہو ۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) دونوں نبی ہیں۔ ہمارا مقصد اور طریقہ یہ ہے کہ آیت قرآن جس قدر مفہوم دیتی ہیں ہم اسی پر توقف کریں۔ خصوصاً جبکہ آیت پر اضافی مفہوم کے لئے سند صحیح کے ساتھ کوئی روایت بھی مروی نہ ہو۔ یہاں بھی اس بات پر صحیح سند سے مروی کوئی روایت نہیں ہے کہ یہ خوشبو مصر سے آئی ۔ محض قیاس اور دلالتہ النص سے ایسے مفہوم کو اخذ نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے اردگرد جو لوگ بیٹھے تھے ان کے اندر وہ احساس نہ تھا جو رب نے ان کو عطا کیا تھا۔ چناچہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو کو نہ پایا۔
قالوا تاللہ انک لفی ضللک القدیم (12 : 95) ” انہوں نے کہا خدا کی قسم بیشک آپ اپنی پرانی غلط فہمی میں پڑے ہیں “۔ آپ اپنی پرانی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ، اب بھی یوسف (علیہ السلام) کا انتظار کر رہے ہیں حالانکہ وہ ان راستوں پر چل نکلا ہے جن سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس پوری کہانی میں جگہ جگہ معجزات اور مناجات ہیں۔