جب حقیقت کھل گئی تو بھائیوں نے حضرت یوسف کی بڑائی کو تسلیم کرتے ہوئے کھلے طور پر اپنی غلطی کا اقرار کرلیا۔دوسری طرف حضرت یوسف نے بھی اس عالی ظرفی کا ثبوت دیا جو ایک سچے خدا پرست کو ایسے موقع پر دینا چاهيے۔ انھوںنے اپنے بھائیوں کو کوئی ملامت نہیں کی۔ انھوںنے ماضی کے تلخ واقعات کو اچانک بھلا دیا اور بھائیوں سے دوبارہ برادرانہ تعلقات استوار کر لیے۔
اِس واقعہ میں انفرادی نصرت کے ساتھ اجتماعی نصرت کی مثال بھی موجود ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ حالات پیدا ہوئے کہ بنی اسرائیل فلسطین سے نکل کر مصر پہنچیں اور وہاں عزت اور خوش حالی کا مقام حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت یوسف کے زمانہ میں حضرت یعقوب کا خاندان مصر منتقل ہوگیا اور تقریباً پانچ سو سال تک وہاںعزت کے ساتھ رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے ان کی تعداد