You are reading a tafsir for the group of verses 12:88 to 12:90
فَلَمَّا
دَخَلُوْا
عَلَیْهِ
قَالُوْا
یٰۤاَیُّهَا
الْعَزِیْزُ
مَسَّنَا
وَاَهْلَنَا
الضُّرُّ
وَجِئْنَا
بِبِضَاعَةٍ
مُّزْجٰىةٍ
فَاَوْفِ
لَنَا
الْكَیْلَ
وَتَصَدَّقْ
عَلَیْنَا ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
یَجْزِی
الْمُتَصَدِّقِیْنَ
۟
قَالَ
هَلْ
عَلِمْتُمْ
مَّا
فَعَلْتُمْ
بِیُوْسُفَ
وَاَخِیْهِ
اِذْ
اَنْتُمْ
جٰهِلُوْنَ
۟
قَالُوْۤا
ءَاِنَّكَ
لَاَنْتَ
یُوْسُفُ ؕ
قَالَ
اَنَا
یُوْسُفُ
وَهٰذَاۤ
اَخِیْ ؗ
قَدْ
مَنَّ
اللّٰهُ
عَلَیْنَا ؕ
اِنَّهٗ
مَنْ
یَّتَّقِ
وَیَصْبِرْ
فَاِنَّ
اللّٰهَ
لَا
یُضِیْعُ
اَجْرَ
الْمُحْسِنِیْنَ
۟
3

’’تقویٰ اور صبر کرنے والوں کا اجر خدا ضائع نہیں کرتا‘‘— یہی بات پورے قصہ یوسف کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی ایک واضح مثال قائم کرنی تھی کہ معاملات دنیا میں جو شخص اللہ سے ڈرنے والا طریقہ اختیار کرے اور بے صبری والے طریقوں سے بچے، بالآخر وہ خدا کی مدد سے ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت یوسف کے واقعہ کو اسی حقیقت کی ایک نظر آنے والی مثال بنا دیاگیا۔

مصر میں ابتداء ً سات اچھے سال اور اس کے بعد سات خراب سال دونوں خدا کے اذن کے تحت ہوئے۔ خدا چاہتا تو تمام سالوں کو اچھے سال بنا دیتا۔ اسی طرح حضرت یوسف کا کنویں میںڈالا جانا اور پھر اس سے نکل کر مصر پہنچنا دونوں خدا کی نگرانی میں ہوا۔ خدا چاہتا تو آپ کو کنویں کے مرحلہ سے گزارے بغیر مصر کے اقتدار تک پہنچا دیتا۔لیکن اگر یہ تمام غیر معمولی حالات پیش نہ آتے تو اسباب کی اس دنیا میں وہ اس بات کی مثال کیسے بنتے کہ خدا ان لوگوں کی مدد کرتاہے جو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تقویٰ اور صبرکی روش پر قائم رہیں۔

واقعات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ ہو۔ اور دوسرا وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ نہ ہو۔ دو واقعات نوعیت کے اعتبار سے بالکل یکساں درجے کے ہوسکتے ہیں۔ مگر ایک واقعہ شہرت پکڑے گا اور دوسرا گمنام ہو کر رہ جائے گا۔ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرے صلحاء اور محسنین کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ مگر حضرت یوسف کے واقعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہرت کا مادہ بھی پوری طرح موجود تھا۔ اس لیے وہ بخوبی طورپر لوگوں کی نظر میں آگیا۔