اب تیسری مرتبہ برادران یوسف (علیہ السلام) مصر کے شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ قحط نے ان کا برا حال کر رکھا ہے۔ نقدی ختم ہے ، اب وہ ردی قسم کی مال اور روپیہ لے کر آئے ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس کچھ بچا بھی نہیں ہے۔ یہ لوگ اس حال میں داخل ہوتے ہیں کہ ان کی شخصیت ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے ، اب وہ پرانی باتیں کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اس کے حال میں داخل ہوتے ہیں کہ ان کی شخصیت ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے ، اب وہ پرانی باتیں کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اس موقعے پر انہوں نے اپنی بدحالی کا جو شکوہ کیا اس سے ان کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے۔
آیت نمبر 88
یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اس کے بھائی اس قدر خستہ حال ہوگئے ہیں اور ان کے اندر اس قدر انکسار آگیا ہے اور وہ رحم کی اپیلیں کر رہے ہیں تو وہ اپنے مرتبے اور مقام کا مزید مظاہرہ جاری نہ رکھ سکے۔ اب ان کے لئے ممکن ہی نہ رہا کہ اپنی شخصیت کو ان سے چھپا سکیں۔ جو سبق ان کو دینا مقصود تھا وہ دے چکے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کو وہ عظیم سر پر ائز دیا جائے جس کے لئے وہ بالکل تیار نہ تھے۔ ان کو تصور ہی نہ تھا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) کے دربار میں کھڑے ہیں۔ چناچہ وہ براہ کرم ان پر اپنی حقیقت ظاہر فرماتے ہیں۔ وہ اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھو تم نے ماضی میں وہ کیا کرتوت کیا تھا ؟ یہ تو ان کی زندگی کا راز تھے۔ اس کے بارے میں انہوں نے کسی کو بتایا ہی نہ تھا۔ صرف اللہ جانتا تھا۔