آیت نمبر 87
یہ ہے اس دل کی آواز جو اللہ تک پہنچا ہوا ہے ! !۔ “ میرے بچو جا کر یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ”۔ اپنے پورے حواس کو استعمال کرو ، نہایت رقت سے ، گہری نظروں سے اور مستقل مزاجی سے تلاش کرو۔ اللہ کے فضل وکرم سے کسی بھی وقت مایوسی کا اظہار نہ کرو۔ یہاں اللہ کے کرم کے لئے (روح) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اللہ کی رحمت پر گہرائی سے دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ مشکلات کے بعد اب آسانیوں کا دور آنے والا ہے۔ کیونکہ جان کن مشکلات کی بعد اب اللہ کی رحمت کی شبنم سے روح کو تراوت ملنے والی ہے۔ '
ولا تایئسو۔۔۔۔۔۔۔ الکفرون (12 : 87) “ اللہ کی رحمت سے تو صرف کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ” ۔ رہے وہ مومن جن کے دل اللہ تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جن کی روح پر معرفت الٰہی کی شنبم گرتی ہے ، جن کے اوپر رحمت الٰہی کی روح پرور خوشگوار ہوا کے جھونکے چلتے ہیں ، وہ کبھی بھی اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہیں ہوتے اگرچہ مشکلات ناقابل برداشت ہوجائیں اور ان کا کلیجہ منہ کو آجائے۔ مومن ہمیشہ ایمان کی چھاؤں میں ہوتا ہے ، وہ تعلق باللہ کی وجہ سے اللہ سے مربوط ہوتا ہے۔ اپنے مولا پر اسے بھروسہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھروسہ انتہائی کرب و الم میں بھی زندہ رہتا ہے۔