قَالَ
اِنَّمَاۤ
اَشْكُوْا
بَثِّیْ
وَحُزْنِیْۤ
اِلَی
اللّٰهِ
وَاَعْلَمُ
مِنَ
اللّٰهِ
مَا
لَا
تَعْلَمُوْنَ
۟
3

آیت نمبر 86

ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پیغمبر کے دل میں اللہ کی حاکمیت اور اختیار مطلق کا کس قدر گہرا شعور ہوتا ہے۔ خدا رسیدہ لوگوں کو اللہ کے انعامات کا بھی احساس ہوتا ہے اور اللہ کی جلالت شان کا گہرا شعور بھی۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق جو ظاہری صورت حالات تھی وہ نہایت ہی مایوس کن تھی اور ایک طویل عرصہ بھی گزر چکا تھا۔ ان کی تو زندگی کی امید ہی قطع ہوچکی تھی چہ جائیکہ یہ امید ہو کہ وہ اپنے والد کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیں گے اور اس مایوس کن صورت حال ہی کے نتیجے میں ان کے بیٹوں نے ان کے اس تازہ تجسس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ لیکن یہ تمام حالات اس اللہ کے بندے کی اس پختہ امید کو متاثر نہ کرسکے جو وہ اللہ سے رکھتے تھے ۔ کیونکہ ان کا اپنے رب سے گہرا رابطہ تھا اور وہ اپنے رب کے بارے میں وہ کچھ جانتے تھے جو وہ دوسرے لوگ نہ جانتے تھے کیونکہ وہ حقائق ان کی نظروں سے اوجھل تھے۔ خصوصاً اس واقعہ کے بارے میں۔

یہ ہے حقیقی ایمان کی قدرو قیمت اور اللہ کی حقیقی معرفت کی شان۔ جب اللہ کے بندوں کو معرفت حاصل ہوتی ہے تو ان پر تجلیات ہوتی ہیں۔ اور وہ عالم شہود میں ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی قدرت اور اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی نگرانی اور اس کی رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ اپنے صالح بندوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔

یہ الفاظ واعلم من اللہ ما لا تعلمون (12 : 86) “ اور میں اللہ کی طرف سے جو کچھ جانتا ہوں تم نہیں جانتے ” ایسے ہیں جن سے یہ حقیقت اس قدر عیاں ہے کہ ہم اس کو کسی طرح اپنے جملے میں ادا نہیں کرسکتے۔ اس بات کو وہی شخص جان سکتا ہے جس کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح صبر کا ذوق خاص دیا گیا ہو ، ایسے ہی لوگ جان سکتے ہیں کہ ان کلمات کا مفہوم کیا ہے ؟

اور جن قلوب کے اندر اس قسم کا ذوق پیدا ہوگیا ہو ، یعنی معرفت الٰہی کا ذوق ، ان پر اگر مشکلات اور شدائد کی بارش ہوجائے تو بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، سوائے اس کے کہ ان شدائد سے ایسے قلوب کا تعلق باللہ ، ذوق معرفت اور مشاہدہ حق مزید قوی ہوجاتا ہے۔

میں اس کے سوا اور کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا ، لیکن میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کا مجھ پر بہت ہی بڑا کرم ہے۔ اس کا میرے ساتھ جو تعلق ہے اسے وہ جانتا ہے یا میں۔ وہ تو علیم وخبیر ہے۔

اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائیوں کی تلاش کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور لڑکوں کو کہتے ہیں کہ وہ مایوس نہ ہوں اللہ کی رحمت بہت ہی وسیع ہے ، اس بات کا امکان ہے کہ وہ سب مل جائیں۔ رحمت الٰہی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔