You are reading a tafsir for the group of verses 12:77 to 12:79
قَالُوْۤا
اِنْ
یَّسْرِقْ
فَقَدْ
سَرَقَ
اَخٌ
لَّهٗ
مِنْ
قَبْلُ ۚ
فَاَسَرَّهَا
یُوْسُفُ
فِیْ
نَفْسِهٖ
وَلَمْ
یُبْدِهَا
لَهُمْ ۚ
قَالَ
اَنْتُمْ
شَرٌّ
مَّكَانًا ۚ
وَاللّٰهُ
اَعْلَمُ
بِمَا
تَصِفُوْنَ
۟
قَالُوْا
یٰۤاَیُّهَا
الْعَزِیْزُ
اِنَّ
لَهٗۤ
اَبًا
شَیْخًا
كَبِیْرًا
فَخُذْ
اَحَدَنَا
مَكَانَهٗ ۚ
اِنَّا
نَرٰىكَ
مِنَ
الْمُحْسِنِیْنَ
۟
قَالَ
مَعَاذَ
اللّٰهِ
اَنْ
نَّاْخُذَ
اِلَّا
مَنْ
وَّجَدْنَا
مَتَاعَنَا
عِنْدَهٗۤ ۙ
اِنَّاۤ
اِذًا
لَّظٰلِمُوْنَ
۟۠
3

مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف کی کسی نانی کے یہاں ایک بت تھا۔ حضرت یوسف اپنے بچپن میں اس کو چپکے سے ان کے یہاں سے اٹھا لائے اور اس کو توڑ ڈالا۔ اسی واقعہ کو بہا نہ بنا کر برادرانِ یوسف نے کہا کہ ’’اس کا بڑا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے‘‘۔ ایک واقعہ جوآپ کی غیرت توحید کو بتا رہا تھا اس کو محض ایک ظاہری مشابہت کی وجہ سے انھوں نے چوری کے خانہ میں ڈال دیا۔

برادرانِ یوسف کا حال یہ تھا کہ مصر کے تخت پر بیٹھے ہوئے یوسف کو تو وہ عزیز (حضور، سرکار) کہہ رہے تھے اور اس کے سامنے خوب تواضع دکھا رہے تھے۔ مگر کنعان کا یوسف جو ان کی نظر میں صرف ایک دیہاتی لڑکا تھا، اس کو عین اسی وقت ناحق چوری کے الزام میں ملوّث کررہے تھے۔

حضرت یوسف کو علم تھا کہ ان کے رکھے ہوئے پیالہ کی وجہ سے بن یامین خواہ مخواہ چور بن رہا ہے۔ مگر وقتی مصلحت کی بناپر وہ خاموش رہے اور واقعہ کو اپنی رفتار سے چلنے دیا جو بھائیوں اور شاہی کارندے کے درمیان ہورہا تھا۔ ایک بار جب آپ کو بولنا پڑا تو یہ نہیں کہا کہ ’’جس نے ہماری چوری کی ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا کہ ’’جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے‘‘۔