You are reading a tafsir for the group of verses 12:69 to 12:76
وَلَمَّا
دَخَلُوْا
عَلٰی
یُوْسُفَ
اٰوٰۤی
اِلَیْهِ
اَخَاهُ
قَالَ
اِنِّیْۤ
اَنَا
اَخُوْكَ
فَلَا
تَبْتَىِٕسْ
بِمَا
كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ
۟
فَلَمَّا
جَهَّزَهُمْ
بِجَهَازِهِمْ
جَعَلَ
السِّقَایَةَ
فِیْ
رَحْلِ
اَخِیْهِ
ثُمَّ
اَذَّنَ
مُؤَذِّنٌ
اَیَّتُهَا
الْعِیْرُ
اِنَّكُمْ
لَسٰرِقُوْنَ
۟
قَالُوْا
وَاَقْبَلُوْا
عَلَیْهِمْ
مَّاذَا
تَفْقِدُوْنَ
۟
قَالُوْا
نَفْقِدُ
صُوَاعَ
الْمَلِكِ
وَلِمَنْ
جَآءَ
بِهٖ
حِمْلُ
بَعِیْرٍ
وَّاَنَا
بِهٖ
زَعِیْمٌ
۟
قَالُوْا
تَاللّٰهِ
لَقَدْ
عَلِمْتُمْ
مَّا
جِئْنَا
لِنُفْسِدَ
فِی
الْاَرْضِ
وَمَا
كُنَّا
سٰرِقِیْنَ
۟
قَالُوْا
فَمَا
جَزَآؤُهٗۤ
اِنْ
كُنْتُمْ
كٰذِبِیْنَ
۟
قَالُوْا
جَزَآؤُهٗ
مَنْ
وُّجِدَ
فِیْ
رَحْلِهٖ
فَهُوَ
جَزَآؤُهٗ ؕ
كَذٰلِكَ
نَجْزِی
الظّٰلِمِیْنَ
۟
فَبَدَاَ
بِاَوْعِیَتِهِمْ
قَبْلَ
وِعَآءِ
اَخِیْهِ
ثُمَّ
اسْتَخْرَجَهَا
مِنْ
وِّعَآءِ
اَخِیْهِ ؕ
كَذٰلِكَ
كِدْنَا
لِیُوْسُفَ ؕ
مَا
كَانَ
لِیَاْخُذَ
اَخَاهُ
فِیْ
دِیْنِ
الْمَلِكِ
اِلَّاۤ
اَنْ
یَّشَآءَ
اللّٰهُ ؕ
نَرْفَعُ
دَرَجٰتٍ
مَّنْ
نَّشَآءُ ؕ
وَفَوْقَ
كُلِّ
ذِیْ
عِلْمٍ
عَلِیْمٌ
۟
3

برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔

اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔

نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔