حضرت یوسف کے اقتدار کے ابتدائی سات سال تک خوب فصل پیدا ہوئی۔ آپ نے سارے ملک میں بڑے بڑے کھتّے بنوائے اور کسانوں سے ان کا فاضل غلَہ خرید کر ہر سال ان کھتوں میں محفوظ کرتے رہے اس کے بعد جب قحط کے سال شروع ہوئے تو آپ نے اس غلہ کو دار السلطنت میں منگوا کر مناسب قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیا۔
یہ قحط چونکہ مصر کے علاوہ اطراف کے علاقوں (شام، فلسطین، شرق اردن وغیرہ) تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ مصر میں غلّہ سستی قیمت پر فروخت ہورہا ہے تو برادران یوسف بھی غلّہ لینے کے لیے مصر آئے۔ یہاں حضرت یوسف کو اگرچہ انھوں نے بیس سال بعد دیکھا تھا، تاہم آپ کی شکل وصورت میں انھیں اپنے بھائی کی جھلک نظر آئی۔ مگر جلد ہی انھوں نے اس کو اپنے دل سے نکال دیا۔ کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جس شخص کو وہ اندھے کنویں میں ڈال چکے ہیں وہ مصر کے تخت پر متمکن ہوسکتاہے۔
حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو ایک ایک اونٹ فی کس غلّہ دلوایا۔ اب ان کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ بن یامین کے نام پر ایک اونٹ غلّہ اور حاصل کریں۔ انھوںنے درخواست کی کہ ہمارے ایک بھائی (بن یامین) کو بوڑھے باپ نے اپنے پاس روک لیا ہے۔ اگر ہم کو اس بھائی کے حصہ کا غلّہ بھی دیا جائے تو بڑی عنایت ہو۔ حضرت یوسف نے کہا کہ غائب کا حصہ دینا ہمارا طریقہ نہیں۔ تم دوبارہ آؤ تو اپنے اس بھائی کو بھی ساتھ لاؤ۔ اس وقت تم اس کا حصہ پاسکوگے۔ تم میری بخشش کا حال دیکھ چکے ہو۔ کیا اس کے بعد بھی تمھیں اپنے بھائی کو لانے میں تردد ہے۔ حضرت یوسف نے مزید کہا کہ جو بھائی تم بتارہے ہو اگر تم اگلی بار اس کو نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور محض دھوکہ دے کر ایک اونٹ غلّہ اور لینا چاہتے تھے۔ اس کی سزا یہ ہوگی کہ آئندہ خود تمھارے حصہ کا غلّہ بھی تم کو نہیںدیا جائے گا۔