آیت نمبر 111
ذرا غور کیجئے ، سورة کا آغاز اور اختتام کس قدر ہم آہنگ ہیں۔ اس طرح قصے کا آغاز و اختتام بھی باہم ۔۔۔۔ ہیں۔ قصے کے آغاز میں بھی نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے درمیان بھی عبرت آموزی کی گئی ہے اور اس کے آخر میں بھی نتائج اخذ کیے گئے ہیں اور مضمون اور موضوع باہم پیوست و ہم آہنگ ہے۔ طرز ادا اور فقرے موزوں ، فنی اعتبار سے قصہ نہایت ہی پرکشش ہے۔ لیکن ان سب خصوصیات کے ساتھ واقعات حقیقت پر مبنی ہیں اور کوئی مبالغہ نہیں ہے۔
یہ قصہ ایک ہی سورة میں پوری طرح بیان ہوجاتا ہے ۔ یک جا پورے کا پورا۔ اس لیے کہ اس قصے کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ یکجا ہو۔ کیونکہ واقعات آہستہ آہستہ رونما ہوتے ہیں۔ ایک دن کے بعد دوسرا دن آتا ہے۔ ایک مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے ، اس لیے اس سے نتائج صرف اسی صورت میں اخذ کیے جاسکتے تھے کہ قصے کو پوری شکل میں ایک سورة میں دے دیا جائے۔ اگر دوسرے قصص کی طرح اس کے صرف بعض حلقے ہی لائے جاتے تو اس طرح وہ نتائج اخذ نہ ہو سکتے تھے جو مکمل قصہ کی شکل میں سامنے آتے ہیں دوسرے قصص کا انداز قرآن میں مختلف رہا ہے۔ مثلاً بلقیس یا قصہ تخلیق مریم۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ ، حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کا واقعہ ، کیونکہ یہ ان قصوں کے بعض حلقے اپنی جگہ مکمل حصے اور کڑیاں ہیں اور ان سے ایک مستقل سبق ملتا ہے۔ لیکن قصہ یوسف ایسا ہے کہ اس کو مکمل طور پر ایک ہی نشست میں پڑھنا ضروری ہے اور ابتداء سے انجام تک ایک ہی جگہ اس کا بیان بھی ضروری ہے۔
نحن نقص علیک ۔۔۔۔۔ الغفلین (12 : 3) “ ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرائے میں واقعات و حقائق (قصص) تم سے بیان کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تم بالکل بیخبر تھے ”۔