You are reading a tafsir for the group of verses 12:109 to 12:110
وَمَاۤ
اَرْسَلْنَا
مِنْ
قَبْلِكَ
اِلَّا
رِجَالًا
نُّوْحِیْۤ
اِلَیْهِمْ
مِّنْ
اَهْلِ
الْقُرٰی ؕ
اَفَلَمْ
یَسِیْرُوْا
فِی
الْاَرْضِ
فَیَنْظُرُوْا
كَیْفَ
كَانَ
عَاقِبَةُ
الَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِهِمْ ؕ
وَلَدَارُ
الْاٰخِرَةِ
خَیْرٌ
لِّلَّذِیْنَ
اتَّقَوْا ؕ
اَفَلَا
تَعْقِلُوْنَ
۟
حَتّٰۤی
اِذَا
اسْتَیْـَٔسَ
الرُّسُلُ
وَظَنُّوْۤا
اَنَّهُمْ
قَدْ
كُذِبُوْا
جَآءَهُمْ
نَصْرُنَا ۙ
فَنُجِّیَ
مَنْ
نَّشَآءُ ؕ
وَلَا
یُرَدُّ
بَاْسُنَا
عَنِ
الْقَوْمِ
الْمُجْرِمِیْنَ
۟
3

تاریخ بتاتی ہے کہ جو لوگ رسالت اور پیغمبری کو مانتے تھے وہ بھی اس وقت اس کے منکر ہوگئے، جب کہ خود اپنی قوم کے اندر سے ایک شخص پیغمبر ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی کا پیغمبر تاریخی طورپر ثابت شدہ پیغمبر بن چکا ہوتاہے، جب کہ حال کا پیغمبر ایک نزاعی شخصیت ہوتاہے۔ تاریخی پیغمبر کوماننا ہمیشہ انسان کے لیے آسان ترین کام رہا ہے اور نزاعی پیغمبر کو ماننا ہمیشہ اس کے لیے مشکل ترین کام۔

عاد اور ثمود اور مدین اور قوم لوط وغیرہ کی تباہ شدہ بستیاں قریش کے آس پاس کے علاقوں میں موجود تھیں۔ وہ اپنے سفروں کے دوران ان کو دیکھتے تھے۔ یہ آثار زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ پیغمبر کو نزاعی دور میں نہ پہچاننے ہی کی وجہ سے ان قوموں پر خدا کا عذاب آیااور وہ ہلاک کردی گئیں۔ اس کے باوجود قریش نے ان سے سبق نہیں لیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ ایک غلط کام کرتاہے مگر کچھ خود ساختہ خیالات کی بنا پر اپنے آپ کو غلط کاروں کی فہرست سے الگ کرلیتاہے۔

سورہ یوسف کی آیت 110 کی تشریح سورہ بقرہ کی آیت 214 سے ہورہی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے— ’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل کرديے جاؤ گے۔ حالانکہ تم پر ابھی وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے والوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے۔یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ خدا کی مدد کب آئے گی۔ جان لو، خدا کی مدد قریب ہے‘‘۔

خدا ہمیشہ داعی کی مدد کرتاہے۔ مگر مدد مدعو کے خلاف داعی کے حق میں خدا کا فیصلہ ہوتا ہے، اسی لیے یہ مدد ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب کہ دعوتی جدوجہد اپنی تکمیل کے آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہو، خواہ اس تاخیر کی وجہ سے دعوت دینے والوں پر مایوسی کے احساسات طاری ہونے لگیں۔

’’اور آخرت کا گھر متقیوں کے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘— اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں اہل ایمان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آخرت میں ان کے ساتھ كيے جانے والے سلوک کی علامت ہوتاہے۔

دنیا میں خدا حق کے داعیوں کی اس طرح مدد کرتاہے کہ ان کی بات تمام دوسری باتوں پر بلند وبالا ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کی تمام سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنا مشن پورا کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ یہی عزت اور سر بلندی ان کو آخرت میں زیادہ کامل اور معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔