حَتّٰۤی
اِذَا
اسْتَیْـَٔسَ
الرُّسُلُ
وَظَنُّوْۤا
اَنَّهُمْ
قَدْ
كُذِبُوْا
جَآءَهُمْ
نَصْرُنَا ۙ
فَنُجِّیَ
مَنْ
نَّشَآءُ ؕ
وَلَا
یُرَدُّ
بَاْسُنَا
عَنِ
الْقَوْمِ
الْمُجْرِمِیْنَ
۟
3

آیت نمبر 110

یہ نہایت ہی خوفناک صورت حال ہے۔ یہاں رسولوں کی زندگیوں کے نہایت ہی کربناک ، تنگی اور شدید مشکل حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ایسے حالات کہ ان میں رسول کفر ، انکار ، ہٹ دھرمی اور کھلے اندھے پن کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ دن یوں ہی گزرتے گئے مگر رسولوں نے کبھی بھی دعوت کو نہیں چھوڑا اور لوگ بھی انکار کرتے رہے۔ روز و شب کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور باطل دندندتا رہا۔ اہل باطل بہت ہی کثرت سے رہے اور اہل ایمان قلیل اور ضعیف رہے۔

کس قدر سخت حالات ہیں ، باطل ہانپ رہا ہے ، سرکشی اور طغیانی کا ارتکاب کر رہا ہے ، اور ظلم وعدوان اس کا شعار ہے۔ رسول ان حالات میں اللہ کے وعدے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کا وعدہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ ان حالات میں ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے آرہے ہیں۔ تم دیکھتے ہو کہ انہیں مسترد کردیا گیا ، تم دیکھتے ہو کہ بظاہر ان کا یہ نظریہ مسترد کردیا گیا کہ اس دنیا میں ان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ لیکن یہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

کوئی بھی رسول جب ایسے حالات سے دو چار ہوتا ہے تو اس وقت تنگی ، شدت اور کرب اور اذیت اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔ یہ آیت اور اس کے ساتھ ساتھ جب سورة بقرہ کی درج ذیل آیت میں پڑھتا ہوں۔

ام حسبتم ان ۔۔۔۔۔۔ نصر اللہ۔ (2 : 214) “ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے اور تمہیں وہ حالات پیش نہ آئیں گے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ ان کو سخت مصیبت اور تکلیف نے چھوا اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی نصرت ؟ ”

جب بھی ان دو آیات میں سے کوئی آیت پڑھتا ہوں تو میں مارے خوف کے کانپ اٹھتا ہوں کہ رسولوں کو کس قدر جان کن مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا ، ایسے مشکل حالات میں انسان طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہوتا ہے ، ایک تسلسل کے ساتھ تکلیف دہ اور ہلا مارنے والے حالات سے دو چار ہوتا ہے جن میں رسول تک متزلزل ہوجاتے ہیں ، ایک کربناک نفسیاتی کشمکش سے انسان دو چار ہوتا ہے اور ایک ناقابل برداشت اذیت ہر وقت پیچھا کرتی رہتی ہے۔

ایسے حالات میں جن میں یہ رنج و غم مسلسل نظر آتا ہے اور کلیجہ منہ کو آجا تا ہے اور رسول اور اس کی جماعت اپنی پوری قوت صرف کردیتی ہے ، تو ایسے حالات میں اللہ کی نصرت آجاتی ہے۔ اور ایسے حالات میں جو نصرت آتی ہے وہ فیصلہ کن ہوتی ہے۔ جاءھم نصرنا فنجی من نشاء ولا یرد باسنا عن القوم المجرمین (12 : 110) “ یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں ، بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا ”۔ یہ ہے دعوت اسلامی کے بارے میں اللہ کی سنت۔ اس راہ میں مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ کربناک حالات سے دوچار ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ تحریک اسلامی اپنی پوری قوت اس راہ میں خرچ کردے۔ اس کی قوت اور طاقت کا پورا حصہ صرف ہوجائے اور نہایت ہی مایوس کن حالات ظاہر ہوجائیں اور ظاہری اسباب جن پر لوگ تکیہ کرتے ہیں ، ایک کے بعد ایک غائب ہوجائیں ، ایسے حالات میں پھر صرف من جانب اللہ نصر آتی ہے اور وہی لوگ نجات پاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم ہوتا ہے اور تحریک اسلامی کے مخالفین پر پھر ہلاکت آتی ہے ، اس سے وہ لوگ بچ جاتے ہیں جو نجات کے مستحق ہوتے ہیں ، اور ان پر وہ ہلاکت نہیں آتی جو مکذبین پر آتی ہے۔ یوں ایسے لوگ اس جبر اور تشدد کے ماحول سے نجات پاتے ہیں جو ظالموں اور جابروں نے ان پر مسلط کردیا ہوتا ہے۔ اب مایوسی اور بےبسی مجرموں کے حصے میں آتی ہے۔ ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے اور ان کی قوت پاش پاش ہوجاتی ہے۔ اب نہ ان کا کوئی ولی ہوتا ہے نہ مددگار ”۔

یہ سنت کیوں وضع کی گئی ہے ؟ اس لیے کہ فتح و نصرت بےقدر نہ ہو۔ وہ محض مذاق نہ ہو ، اگر قربانیوں کے بغیر فتح و نصرت ہاتھ آجایا کرتی تو ہر کوئی اٹھ کر داعی بن جاتا اور کوئی قربانی دئیے بغیر وہ کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا یا معمولی جدو جہد سے وہ انقلاب برپا کردیتا۔ اس لیے اللہ نے دعوت اسلامی کو محض کھیل تماشے کی طرح آسان نہیں رکھا۔ دعوت اسلامی کا مقصد پوری زندگی کے طور پر طریقوں میں انقلاب برپا کرنا ہے۔ اور یہ انقلاب وہ لوگ نہیں برپا کرسکتے جو محض دعویٰ ہی کریں ، اس کی پشت پر کوئی قربانی نہ ہو۔ ایسے لوگ دعوت اسلامی کی راہ میں دی جانے والی قربانیاں نہیں برداشت کرسکتے۔ ایسے لوگ پہلے تو دعوت اسلامی جیسے مشکل کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے لیکن اگر یہ غلطی کر بھی بیٹھیں تو وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتے اور جلد ہی عاجز آ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ جب راہ حق میں مشکلات آتی ہیں تو صرف صادق اور اولوالعزم لوگ ہی ان کا مقابلہ کرتے ہیں جو کسی حال میں بھی دعوت اسلامی کی راہ نہیں چھوڑتے اگرچہ ان کو یقین ہوجائے کہ اس جہان میں ان کو کامیابی نہ ہوگی۔

دعوت اسلامی کوئی ایسا سودا نہیں ہے جو ایک محدود وقت کے لئے ہو ، نیز اس سودے کا منافع بھی اس دنیا کی محدود زندگی تک موقوف نہیں ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ یہ سودا کرنے والے لوگ اس کا اقالہ کر کے کسی اور نفع بخش سودے کے لئے تیار ہوجائیں ، جس سے ان کو اس دنیا میں جلدی نفع مل جائے۔ جو ۔۔۔ لوگ دعوت اسلامی کا علم کسی بھی جاہلی معاشرے میں بلند کرتے ہیں (اور یاد رہے کہ جاہلی معاشرہ ہر وہ معاشرہ ہوتا ہے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہ ہو ، اور اللہ کے سوا اور طاغوتوں کی اطاعت کی جاتی ہو ) ایسے لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ تحریک کا کارکن ہونا کوئی تفریح کا کام نہیں ہے ، نہ یہ کام دنیا کے مفاد کا کوئی تجارتی عمل ہے۔ یہ تو ان طاغوتی قوتوں کے ساتھ کشمکش پیہم کا معاملہ ہے جو افراد اور مالی قوت رکھتی ہیں اور ان طاغوتی قوتوں نے جمہور کو اس طرح دبا رکھا ہے کہ وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کہتی ہیں۔ اور عوام بےبس ہیں۔ پھر یہ قوتیں اس قدر بااثر ہیں کہ یہ عوام کا لانعام کو اسلامی تحریکوں پر کتوں کی طرح چھوڑ دیتی ہیں اور عوام کے اندر ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ لوگو ! یہ لوگ تم کو ہر قسم کی تفریح اور عیاشی سے محروم کردیں گے اور زندگی کی رنگا رنگی ختم کر کے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔ غرض دعوت اسلامی کے حاملین کا فرض ہے کہ وہ سمجھ لیں کہ اس راہ میں کانٹے ہی کانٹے ہیں ، اور پھر اس مشکلات کو انگیز کرنے کا عمل مزید مشکل ہے۔ لہٰذا قاعدہ یہ ہے کہ ابتداء میں تحریک اسلامی کے کارکن اولو العزم لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ عامۃ الناس اس تحریک سے دور بھاگتے ہیں۔ معاشرے کے چیدہ ، پسندیدہ اور اولوالعزم لوگ ہی اس طرف آتے ہیں۔ یہ لوگ اقامت دین پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ان دنیا کا سب آرام اور سامان قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ابتداء میں ایسے لوگ قلیل ہوتے ہیں ، لیکن اللہ ایسے لوگوں اور ان کی قوم کے درمیان حق پر فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ حق تب ظاہر ہوتا ہے جب اس کے لئے طویل جدو جہد کی جائے اور جب حق آتا ہے ، فیصلہ ہوجاتا ہے ، فتح حاصل ہوجاتی ہے تو جمہور لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں۔

قصہ یوسف (علیہ السلام) میں رنگا رنگ مشکلات ہیں جن سے یہ داعی دو چار ہوتا ہے۔ اندھے کنویں میں ان کو ڈالا جاتا ہے۔ عزیز مصر کے گھر وہ ملازم اور غلام کی طرح رہتے ہیں۔ پھر ناحق جیل جاتے ہیں اور لوگوں کی امداد سے مایوس ہوتے ہیں لیکن آخری انجام انہیں لوگوں کے حق میں ہوتا ہے۔ جو ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا اور اللہ کا وعدہ ہر حال میں سچا ہوتا ہے ۔ قصہ یوسف قصص انبیاء میں سے ایک اہم نمونہ ہے اور ہر عقل رکھنے والے کے لئے اس میں سبق ہے۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ حضرت محمد ﷺ انبیائے سابقہ کے حالات سے خبردار نہ تھے لیکن اس قصے میں یہ تفصیلات دی گئیں ، اس لیے یہ دلیل ہے صداقت قرآن پر ، ورنہ کسی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ایسے حالات اپنی طرف سے گھڑ کر بنائے اور وہ حرف بحرف درست ہوں اور مصنوعی کہانیوں پر دل مومن کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔