آیت 110 حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ یعنی متعلقہ قوم میں جس قدر فطرت سلیمہ کی استعداد potential تھی اس لحاظ سے نتائج سامنے آچکے۔ ان میں سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ ایمان لا چکے اور مزید کسی کے ایمان لانے کی توقع نہ رہی۔ بالفاظ دیگر اس چاٹی میں سے جس قدر مکھن نکلنا تھا نکل چکا ‘ اب اسے مزید بلونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْایہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل متعلقہ قوم کے لوگ ہیں ‘ یعنی اب تک جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ مزید دلیر ہوگئے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ واقعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ اگر سچ ہوتا تو اتنے عرصے سے ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں مل رہی تھیں وہ پوری ہوجاتیں۔ ہم ایمان بھی نہیں لائے اور عذاب بھی نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ اور عذاب کے یہ ڈراوے سب جھوٹ ہی تھا۔جَاۗءَهُمْ نَصْرُنَایعنی انبیاء و رسل کی دعوت اور حق و باطل کی کشمکش کے دوران ہمیشہ ایسا ہوا کہ جب دونوں طرف کی سوچ اپنی اپنی آخری حد تک پہنچتی پیغمبر سمجھتے کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا اور منکرین سمجھتے کہ اب کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا یہ سب ڈھونگ تھا تو عین ایسے موقع پر نبیوں اور رسولوں کے پاس ہماری طرف سے مدد پہنچ جاتی۔فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ یعنی اپنے انبیاء ورسل کے لیے ہماری یہ مدد منکرین حق پر عذاب کی صورت میں آتی اور اس عذاب سے جسے ہم چاہتے بچا لیتے ‘ لیکن اس سلسلے کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین پر ہمارا عذاب آکر ہی رہتا ہے۔ ان کی طرف سے اس کا رخ کسی طور سے موڑا نہیں جاسکتا۔