آیت نمبر 109
سابقہ اقوام کی تاریخ میں بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت ہوتی ہے۔ اس لئے بعد میں آنے والوں کو چاہئے کہ وہ سابقین کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ اس سے دل نرم ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کے دلوں میں خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ جب اقوام سابقہ کی سرگرمیوں اور ان کی چلت پھرت کو اپنے تخیل میں زندہ کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اپنی شان و شوکت ہے اور پھر پردۂ خیال پر یہ دور آتا ہے کہ وہ دیکھو یہ لوگ تو نیست و نابود ہوگئے اور مرمٹ گئے ، بغیر حس و حرکت پڑے ہیں اور مٹی میں مل گئے ہیں۔ ان کے وہ شہر اور بستیاں کھنڈرات کی شکل اختیار کر گئیں اور ان کے ساتھ ان کا علم و ثقافت اور ان کی چلت اور پھرت اور ان کا عروج اور ان کے افکار بھی مر مٹ گئے تو ایسے تخیلات اور غوروفکر سے انسانوں کے دل دہل جاتے ہیں اور غافل سے غافل انسان کے بھی مارے خوف کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم لوگوں کو امم سابقہ کے عروج وزوال کی کہانیاں سناتا ہے اور ان کو لے جا کر ان کھنڈرات میں گھماتا ہے جو ان اقوام کی داستانیں سناتے ہیں۔
وما ارسلنا۔۔۔۔۔ القری (12 : 109) ” تم سے پہلے جو ہم نے پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے “۔ یعنی وہ نہ ملائکہ اور فرشتے تھے اور نہ وہ کوئی اور انوکھی مخلوق تھے ، بلکہ اے پیغمبر وہ تو آپ ہی جیسے انسان تھے۔ شہری تھے ، دیہاتی نہ تھے تا کہ وہ سلجھے ہوئے ہوں اور نرمی سے بات سنیں۔ لہٰذا آپ دعوت اسلامی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے کی سعی کریں اور لوگوں کو راہ راست دکھاتے رہیں۔ آپ کی تحریک اور دعوت بھی اسی سنت الٰہی پر قائم ہے جس کے مطابق اللہ نے تمام انبیاء کو بھیجا۔ یہ لوگ بشر تھے اور ان کی طرف خدا کا پیغام وحی کیا گیا تھا ؟
افلم یسیروا ۔۔۔۔۔ من قبلھم (12 : 109) ” پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا انجام نظر نہ آیا ، جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں “۔ تا کہ وہ جان سکیں کہ ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جیسا کہ ان کا ہوا۔ الا یہ کہ سنت الٰہیہ انہیں اپنی گرفت میں لینے ہی والی ہے اور تا کہ وہ یہ سمجھتے کہ اس دنیا سے تو جانا ہی ہے۔
ولدارالاخرۃ خیر للذین اتقوا (12 : 109) ” یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جنہوں نے تقوی کی روش اختیار کی “۔ اس لئے کہ اس جہان میں تو قرار نہیں ہے ، یہاں سے تو جانا ہی ہے۔
افلا تعقلون (12 : 109) ” کیا اب بھی تم لوگ نہیں سمجھتے “۔ کیا تم لوگ انسانی تاریخ میں سنت الٰہیہ کے عمل کو سمجھتے نہیں۔ اور کیا تمہاری عقل ایسے معاملے میں بھی معقول فیصلہ نہیں کرسکتی کہ ایک چیز فانی ہے اور ایک باقی ہے اور فانی پر باقی کو ترجیح دینا چاہئے۔
اب رسولوں کی زندگی کی بعض مشکل گھڑیوں کا ذکر کیا جاتا ۔ اور یہ مشکل مقامات آخری فتح سے قبل آیا کرتے ہیں۔ یہ مشکلات اللہ کی سنت کا حصہ ہیں اور یہ داعی کو درپیش آتی ہیں کیونکہ سنت الٰہیہ ٹلنے والی نہیں ہوتی ۔