حق کے ظہور کے بعد جو لوگ اس کو نہ مانیں وہ اپنے انکار کو ہمیشہ اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ جو دلیل مطلوب تھی وہ دلیل حق کی طرف سے ان کے سامنے نہیںآئی۔ اگر ایسی دلیل ہوتی تو وہ اس کو ضرور مان لیتے۔ گویا ان کے اعراض یا انکار کا سبب ان کے باہر ہے، نہ کہ ان کے اندر۔
مگر حقیقت حال ا سکے برعکس ہے۔ حق اتنا واضح ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو زمین وآسمان کی تمام نشانیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ ساری کائنات میں سب سے زیادہ ثابت شدہ چیز ہوتا ہے ۔ مگر حق کو پانے کے لیے اصل ضرورت دیکھنے والی آنکھ اور عبرت پکڑنے والے دماغ کی ہے۔ اور یہی چیز منکرین کے یہاں موجود نہیں ہوتی۔
حق کے مقابلہ میں آدمی جب سرکش دکھائی دیتا ہے تو اکثر حالات میں اس کی وجہ ’’شرک‘‘ ہوتا ہے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کو مانتے ہوئے انھوںنے کچھ اورزندہ یا مُردہ ہستیاں فرض کر رکھی ہیں جن پر وہ اپنا اعتماد قائم كيے ہوئے ہیں، جن کو وہ بڑائی کا مقام دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک نے خدا کے سوا کچھ ’’بڑے‘‘ بنا رکھے ہیں۔ وہ انھیں بڑوں کے بھروسہ پر جی رہے ہیں۔ حالانکہ خدا کے یہاں سب چھوٹے ہیں۔ وہاں کسی کو جو چیز بچائے گی وہ اس کا ذاتی عمل ہے، نہ کہ مفروضہ بڑوں کی بڑائی۔
پیغمبر کا کام ایک اللہ کی طرف بلانا ہے۔ یہی اس کا مشن ہے ۔ اس مشن کو اس نے بصیرت کے طورپر اختیار کیا ہے، نہ کہ تقلید کے طورپر۔ گویا پیغمبرانہ دعوت وہ دعوت ہے جو انسان کو ایک خدا سے جوڑنے کی دعوت ہو اور جس کی صداقت داعی کے اوپر اتنی کھل چکی ہو کہ وہ اس کے لیے بصیرت اور معرفت بن جائے۔ اسی طرح پیغمبر کے پیرو وہ لوگ ہیں جو حق کو بصیرت کی سطح پر پائیں اور توحید کی سطح پر اس کا اعلان کریں۔
آدمی اپنے وقتی اطمینان کو مستقل اطمینان سمجھ لیتاہے۔ حالانکہ کسی کے پاس اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس کی مہلتِ عمر کب تک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آکر اس کے تمام مزعومات کو باطل کردے گی۔ کب قیامت کا زلزلہ اس کی بنی بنائی دنیا کو الٹ پلٹ دے گا۔ آدمی اپنے آپ کو یقینی انجام کی دنیا میں سمجھتا ہے حالانکہ وہ ہر لمحہ ایک غیر یقینی انجام کے کنارے کھڑا ہوا ہے۔