قُلْ
هٰذِهٖ
سَبِیْلِیْۤ
اَدْعُوْۤا
اِلَی
اللّٰهِ ؔ۫
عَلٰی
بَصِیْرَةٍ
اَنَا
وَمَنِ
اتَّبَعَنِیْ ؕ
وَسُبْحٰنَ
اللّٰهِ
وَمَاۤ
اَنَا
مِنَ
الْمُشْرِكِیْنَ
۟
3

آیت نمبر 108

ھذہ سبیلی ، “ یہ ہے میرا راستہ ”۔ یہ ایک راستہ ہے ، یہ سیدھا راستہ ہے ، اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے ، اور اس کے احکام و قوانین میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

ادعوا الی ۔۔۔۔۔۔ ومن اتبعنی “ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھ بھی ”۔ یعنی ہمیں اللہ کی راہنمائی حاصل ہے اور ہمیں اس کی طرف سے روشنی دی گئی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ اچھی طرح معلوم ہے اور ہم بصیرت و بصارت کے ساتھ اس پر چل رہے ہیں۔ ہمیں بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہی راستہ ہے اسے ہم روشنی میں دیکھ بھی رہے ہیں۔ ہم اللہ کو ان چیزوں سے پاک سمجھتے ہیں جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اور ہم ان سے جدا اور ممتاز اور قطع تعلق کرنے والے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ وما انا من المشرکین “ اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ”۔ نہ ظاہری شرک کرنے والوں میں سے اور نہ باطنی شرک کرنے والوں میں سے۔ یہ ہے براہ راست پس جو چاہے اسے قبول کرلے اور جو چاہے اس سے انکار کر دے ۔ میں تو بہرحال اسی راہ پر چلوں گا کیونکہ یہی سیدھی راہ ہے۔

یہاں داعیان حق کو ایک بات نوٹ کرلینا چاہئے یہ کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ انہوں نے دو ٹوک بات کرنی ہے ، ان کو اعلان کرنا ہے کہ وہ ایک علیحدہ امت ہیں۔ وہ ان لوگوں سے بالکل جدا ہیں جو ان کے نظریات کو من و عن تسلیم نہیں کرتے ۔ جو ان کے مسلک اور طریق کار کے مطابق چلتے نہیں ، یا جو ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے ، انہیں جاہلی معاشرے سے چھٹ کر علیحدہ ہوجانا چاہئے ، پوری طرح علیحدہ۔ داعیان حق کا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ بس وہ دعوت دین کا حق ادا کردیں اور پھر اپنے اردگرد پھیلے ہوئے جاہلی معاشرے میں گھل مل جائیں۔ اس قسم کی دعوت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ان کو صاف صاف اعلان کرنا ہوگا۔ کہ وہ جاہلیت سے ممتاز کچھ علیحدہ لوگ ہیں۔ ان کو ایک نظریہ کی بنیاد پر علیحدہ اجتماعیت اور تنظیم کی بنیاد رکھنی ہوگی اور ایک اسلامی قیادت کے نام اور عنوان سے منظم ہونا ہوگا۔ اور اس جاہلی معاشرے سے پوری طرح علیحدہ ہونا ہوگا۔ ان کی قیادت کو بھی ایک جاہلی قیادت سے ممتاز ہونا ہوگا۔

کسی جاہلی معاشرے میں گھل مل جانا اور جاہلی قیادت کے تحت زندگی بسر کرنا ، اسلامی نظریہ حیات کی قوت اور جوش کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ اور ان کی دعوت کے تمام اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ اور دعوت اسلامی کے اندر وہ جاذبیت نہیں رہتی جو اس صورت میں ہوتی ہے جب اسلامی نظام قائم ہو۔

یہ حقیقت صرف اسی وقت حقیقت نہ تھی جب حضور اکرم ﷺ مشرکین مکہ کے جاہلی معاشرے میں کام کر رہے تھے بلکہ جب بھی جاہلیت غالب ہوگی اور کوئی اسلامی تحریک اس کے خلاف جدو جہد شروع کرے گی تو اس کے خلاف ایسا ہی کرنا ہوگا۔ اس وقت بیسویں صدی کی جو جاہلیت چھائی ہوئی ہے ، وہ ان تمام جاہلیتوں کی طرح ہے جن کے خلاف انسانی تاریخ میں انبیاء کی اسلامی تحریکات نے کام کیا ، سب کے خدو خال ایک جیسے ہیں۔

وہ لوگ جن کے ذہنوں میں یہ خیال خام جاگزیں ہے کہ وہ موجودہ جاہلی معاشرے کے اندر رہ کر ، اور موجودہ جاہلی معاشرے کے طور طریقے اپنا کر اور ان جاہلی سو سائٹیوں کے اندر رہ کر نہایت ہی نرم انداز تبلیغ سے اسلام کی دعوت دیں گے اور کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے وہ کھلی خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کو سرے سے سمجھے ہی نہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ اسلامی نظریہ حیات دلوں میں کس طرح اترتا ہے۔ تمام جاہلی نظریات کے حامل لوگ اپنے نصب العین ، اپنے طریقہ کار اور اپنا نام اور عنوان نہایت ہی واضح طور پر بتاتے ہیں اور اعلانیہ اپنے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیا داعیان اسلام ہی رہ گئے ہیں جو چھپ چھپا کر کام کریں گے ۔ حالانکہ ان کے کام کے لئے ایک طریقہ کار وضع شدہ ہے اور وہ جاہلیت کے طریقہ کار سے ممتاز ہے۔

٭٭٭

اب ایک نکتہ توجہ طلب ہے کہ رسولوں اور رسالتوں کے بارے میں اللہ کی سنت کیا ہے ؟ اور یہ کہ بعض سابقہ اقوام کا جو انجام ہوا اس میں بعد میں آنے والوں کے لیے کیا عبرت ہے ؟ حضرت محمد ﷺ کوئی پہلے نبی نہیں ہیں۔ آپ سے قبل بھی رسول آئے اور انہوں نے اپنی رسالت پیش کی۔ اس سے قبل جن لوگوں نے ناحق تکذیب کی ، ان کا انجام تمہارے لیے سبق آموز ہے۔