قُلْ
هٰذِهٖ
سَبِیْلِیْۤ
اَدْعُوْۤا
اِلَی
اللّٰهِ ؔ۫
عَلٰی
بَصِیْرَةٍ
اَنَا
وَمَنِ
اتَّبَعَنِیْ ؕ
وَسُبْحٰنَ
اللّٰهِ
وَمَاۤ
اَنَا
مِنَ
الْمُشْرِكِیْنَ
۟
3

آیت 108 قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ 7 عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ یعنی میرا اس راستے کو اختیار کرنا اور پھر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا یونہی کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں ہے بلکہ میں اپنی بصیرت باطنی کے ساتھ پوری سوجھ بوجھ اور پورے شعور کے ساتھ اس راستے پر خود بھی چل رہا ہوں اور اس راستے کی طرف دوسروں کو بھی بلا رہا ہوں۔ اسی طرح میرے پیروکار بھی کوئی اندھے بہرے مقلد نہیں ہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ میری پیروی کر رہے ہیں۔آج کے دور میں اس شعوری ایمان کی بہت ضرورت ہے۔ اگرچہ blind faith بھی اپنی جگہ بہت قیمتی چیز ہے اور یہ بھی انسان کی زندگی اور زندگی کی اقدار میں انقلاب لاسکتا ہے ‘ لیکن آج ضرورت چونکہ نظام بدلنے کی ہے اور نظام پر معاشرے کے intelligentsia کا تسلط ہے اس لیے جب تک اس طبقے کے اندر شعور اور بصیرت والا ایمان پیدا نہیں ہوگا یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔