آیت نمبر 103 تا 107
رسول اللہ ﷺ بڑی شدت کے ساتھ یہ چاہتے تھے کہ آپ کی قوم ایمان لے آئے۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ جو بھلائی لے کر آئے ہیں وہ ان تک پہنچ جائے اور وہ محروم بھی نہ رہیں ، نیز آپ کو اپنی برادری پر ترس آ رہا تھا کہ اگر وہ شرک کی حالت پر ہی رہے تو دنیا میں بھی ان کو روز بد دیکھنا ہوگا اور آخرت میں وہ دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ تو انسانی دلوں کے بہت ہی قریب ہے ، وہ علیم وخبیر ہے۔ وہ انسانوں کے مزاج اور ان کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ کو بتلایا جاتا ہے کہ آپ کی یہ حرص اور یہ شدید خواہش ان کو اسلام کی طرف راغب نہ کرسکے گی ، اور ان میں سے اکثر مشرک ہی رہیں گے اس لیے کہ یہ لوگ آیات الٰہی کو دیکھ کر یونہی گزر جاتے ہیں ، منہ پھیر لیتے ہیں اور ان کا یہ اعراض ہی ان کے راستے کا روڑا ہے۔ ان کو ایمان سے روک رہا ہے۔ اس کائنات میں جگہ جگہ جو دلائل بکھرے ہوئے ہیں ، یہ ان سے استفادہ نہیں کرتے۔
آپ تو فقط تبلیغ پر مامور ہیں ، اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کا کچھ نقصان نہیں ہے۔ آپ اس کام کے لئے کسی کوئی اجر طلب نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اعراض کرتے ہیں اور ہدایات سے منہ پھیرتے ہیں حالانکہ یہ ہدایت انہیں مفت فراہم کی جا رہی ہے۔
وما تسئلھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ للعلمین (12 : 104) “ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے ”۔ آپ ان کو آیات الٰہیہ کی یاد دہانی کرا رہے ہیں ، ان کی بصارت اور بصیرت دونوں کو راہ ہدایت کی طرف موڑنا چاہتے ہیں اور یہ رہنمائی تمام جہان والوں کے لیے عام ہے ، یہ کسی ایک قوم ، کسی مخصوص نسل اور کسی خاص قبیلے کے لئے محدود نہیں ہے۔ اس کی کوئی بھی قیمت مقرر نہیں ہے کہ کوئی ادا کرنے سے قاصر ہو ، صرف اغنیاء ہی اسے خرید سکتے ہیں۔ فقراء کے بس کی بات نہ ہو۔ نیز اس کے حصول کے لئے کوئی جسمانی توانائی کی شرط بھی نہیں ہے کہ طاقتور لوگ اسے حاصل کرسکتے ہیں اور ناتواں اس کے حصول سے عاجز ہوں۔ یہ تو تمام جہاں والوں کے لیے کھلی نصیحت ہے۔ یہ ایک ایسا کھلا دستر خوان ہے جس پر تمام لوگ مدعو ہیں جو چاہے اسے قبول کرلے۔
وکاین من ۔۔۔۔۔۔۔ معرضون (12 : 105) “ زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے ”۔ وہ نشانیاں جو ذات باری پر گواہی دے رہی ہیں ، جو اللہ کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں وہ اس کائنات میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں اور لوگوں کی بصارت اور بصیرت کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔ یہ آسمانوں میں بھی ہیں اور زمین میں بھی ہیں اور یہ لوگ صبح و شام ان کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ رات کے وقت بھی یہ ان کے سامنے ہوتی ہیں اور صبح کے وقت بھی ۔ یہ لوگوں کو پکار پکار کر دعوت دے رہی ہیں اور یہ اس قدر کھلی ہیں کہ لوگوں کی نظروں اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ یہ انسان کے قلب و نظر کو دعوت فکر دے رہی ہیں ، لیکن لوگ نہ ان کو دیکھتے ہیں ، نہ ان کی پکار کی طرف کان دھرتے ہیں اور نہ ان کے جھنجھوڑنے سے ان کا احساس جاگتا ہے۔
ذرا ایک لمحے کے لئے سورج کے طلوع اور غروب پر ہی غور کرلو ، ذرا درختوں کے سائے پر ہی غور کرلو کہ کس طرح غیر محسوس انداز میں گھٹتا بڑھتا ہے۔ ذرا ناپید کنار سمندر کو دیکھو ، ذرا زمین میں سے ابلتے ہوئے چشموں کی دیکھو ، ذرا بہتی ہوئی ندیوں کا نظارہ کرو ، ذرا فضائے آسمانی میں اڑنے والے پرندوں کو دیکھو ، اور پھر ذرا پانی کے اندر تیرتی ہوئی رنگ برنگ مچھلیوں کو دیکھو ، ذرا سطح زمین پر رینگنے والے کیڑوں کو دیکھو ، چیونٹیوں اور دوسرے حشرات و حیوانات کے اس لشکر عظیم کو دیکھو اور وہ حیوانات و جراثیم جو نظر ہی نہیں آتے ، اور گردش لیل ونہار کو دیکھو ، رات کے سکون اور دن کی خوشیوں کو دیکھو۔ ایک لمحے کا غوروفکر انسان پر اس کائنات کے عجائبات کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ یہ مختصر اور متفکرانہ لحظہ ہی انسانی ادراک کی دنیا میں ایک وسیع ارتعاش پیدا کرسکتا ہے اور انسان فطرت کائنات کی پکار پر لبیک کہہ سکتا ہے لیکن یمرون علیھا وھم عنھا معرضون (12 : 105) “ یہ لوگ ان پر گزرتے ہیں لیکن توجہ نہیں کرتے ”۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ پھر وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ان کی فکرو نظر میں بھی کسی نہ کسی راہ سے شرک داخل ہوگیا ہے۔ لہٰذا ایمان خالص کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر لمحہ بیدار اور چوکنا رہے اور دل سے ہر قسم کے شیطانی وسوسوں کو نکال باہر کر دے۔ دل کو ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے پاک کردے۔ اپنی ہر سوچ ، ہر عمل اور ہر قسم کے تصرفات و اقدامات میں رضائے الٰہی کو پیش نظر رکھے۔ ہر عمل اور ہر اقدام اللہ کرے ، ایمان خالص وہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہو ، وہ انسان کے قول و فعل اور طرز عمل پر پوری طرح حکمران ہو ، اور وہ انسان پر اس طرح اثر انداز ہو کہ انسان کی زندگی پر اللہ کے سوا کسی اور کی حکمرانی باقی نہ رہے۔ انسان اپنے کسی معاملے میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرے۔ اور وہ اس حاکم کا بندہ ہو جس کے حکم کو کوئی بھی رد کرنے والا نہیں ہے۔
وما یومن ۔۔۔۔۔۔ مشرکون (12 : 106) “ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ”۔ یہ لوگ کیسے مشرک ہیں ؟ یہ اس کرۂ ارض پر واقعات ، اشیاء اور اشخاص کی قدرو قیمت کے تعین میں شرک کرتے ہیں۔ انسان کے نفع پہنچنے میں اور انسان کو مضرت سے بچانے کے سلسلے میں محض اللہ کی قدرت اور فیصلے کے سوا اور اسباب بھی تلاش کرتے ہیں۔ یہ اللہ اور اللہ کے قانون کے سوا کچھ اور شخصیات اور اداروں کو منبع ہدایت اور ذریعہ قانون اور شریعت قرار دیتے ہیں۔ یہ اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں باندھتے ہیں ، یہ ایسی قربانیاں اور خیراتیں کرتے ہیں جن کی تہہ میں رضائے الٰہی کے علاوہ کچھ اور شخصیات کی رضا بھی موجود و ملحوظ ہوتی ہے۔ یہ اللہ کے سوا اوروں سے نفع حاصل کرنے یا نقصان کے رکوانے کے عمل بےسود میں جدو جہد کرتے ہیں یا اللہ کی بندگی میں محض اللہ کی رضا کے سوا اوروں کی رضا کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہی شرک خفی ہے اور اسی وجہ سے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تمہارے اندر شرک اس قدر غیر محسوس طور پر داخل ہوجاتا ہے جس طرح چیونٹی کے چلنے کی آواز خفیہ ہوتی ہے۔
حضرت نبی ﷺ نے اس سلسلے میں چند نمونے بیان فرمائے ہیں جن سے شرک خفی کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ امام ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے “ جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے شرک کا ارتکاب کیا ”۔ امام ابو داؤد اور امام احمد وغیرہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے “ حضور ﷺ نے فرمایا کہ دم اور تعویذ شرک ہے ” ۔ مسند امام احمد میں عقبہ ابن عامر کی حدیث نقل ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کا ارتکاب کیا ”۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے انہی کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں شریکوں کی شرکت کا محتاج نہیں ہوں جس نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا تو میں اسے اس غیر کے حوالے کردیتا ہوں ”۔
امام احمد نے ابو سعید ابن فضالہ سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا میں نے حضور اکرم ﷺ کو کہتے سنا “ جب اللہ اولین اور آخرین کو اس دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے تو ایک پکارنے والا پکارے گا “ جس شخص نے ایسے کام میں اللہ کا کوئی شریک ٹھہرایا جو اللہ کا مخصوص تھا ، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا اجر اس شریک سے طلب کرے ، کیونکہ اللہ شریکوں کی شراکت کا محتاج نہیں ہے ”۔
امام احمد نے اپنی سند سے محمود ابن بسید سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ میں تمہیں اس چھوٹے شرک سے ڈراتا ہوں جس کے بارے مجھے تشویش ہے ”۔ صحابہ نے کہا “ رسول خدا ، وہ چھوٹی شرک کیا ہے ؟ ” تو آپ نے فرمایا “ وہ خواہیں ہیں ”۔ جب قیامت میں لوگ اپنے اپنے اعمال لے کر آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، جاؤ ان لوگوں کے پاس جن کو تم دنیا میں کچھ سمجھتے تھے اور دیکھو ان کے پاس ہے کچھ تمہیں جزاء کے طور پر دینے کے لئے ۔ ”
غرض ایمان کے باوجود یہ شرک خفی کی اقسام ہیں۔ ایک مومن کو چاہئے کہ وہ ان کے بارے میں چوکنا رہے اور ان سے بچنے کی سعی کرے تا کہ اس کا ایمان خالص ہوجائے۔
شرک خفی کے علاوہ بعض واضح اعمال شرکیہ ہیں اور ان میں سے ایک یہ طرز عمل ہے کہ انسان اللہ کے سوا کسی اور کے دین اور نظام کی پیروی کرے ، زندگی کے معاملات میں سے کسی بھی معاملے میں۔ مثلاً وہ ایسے قانون کے مطابق فیصلے کرائے یا کرے جو شریعت کے خلاف ہو ، یہ فعل ایک صریح اور منصوص اور واضح شرک ہے جس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے مثلاً ایسے عرس اور میلے مقرر کرنا جو اللہ نے مقرر کیے ہوئے نہ ہوں یا دوسرے ایسے رسم و رواج جن کا کوئی ثبوت شریعت سے نہ ہو۔ یا ایسے لباس جن میں ستر عورت اور دوسرے احکامات کے سلسلے میں شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ یہ سب کے سب صریح شرکیہ افعال ہیں۔
ایسے معاملات جن کا تعلق ایسے رسوم اور ایسی تقریبات سے ہو جو خلاف اسلام ہوں اور جن کو اللہ کے سوا کسی اور نے رواج دیا ہو اور جن پر عمل پیرا ہونا لوگ ضروری سمجھتے ہوں ، اس طرح جس طرح فرمودۂ خدا و رسول ہو تو ایسے افعال و رسوم محض گناہ ہی نہیں رہتے بلکہ یہ شرک کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ ان کی پیروی سے انسان غیر اللہ کے دین اور نظام کا اتباع کرتا ہے جو خلاف نظام کا اتباع کرتا ہے جو خلاف نظام اسلامی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ امر نہایت ہی اہم ، خطرناک اور شرک ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وما یومن ۔۔۔۔۔ مشرکون (12 : 106) “ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ”۔ لہٰذا اس آیت کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو جزیرۃ العرب میں ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے تھے اور آپ کے بعد آنے والے لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو ایمان تو لاتے ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح شرک کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے کہ ہدایت سے اعراض کرنے والے یہ لوگ اس سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اور آیات قرآنیہ کے بعد آیات کونیہ سے بھی وہ منہ موڑ رہے ہیں۔ آخر وہ کیا سہارا ہے ؟ کیا یہ خدا کا خوف نہیں کرتے۔
افا منوا ان۔۔۔۔۔۔ لا یشعرون (12 : 107) “ کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بیخبر ی میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آجائے گی ”۔ یہ ان کے شعور کے تاروں پر ایک قوی ضرب ہے ، تا کہ وہ خواب غفلت سے جاگیں اور اس غفلت کے انجام بد سے ڈریں ، کیونکہ عذاب الٰہی کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے ، وہ تو کسی بھی وقت نازل ہو سکتا ہے ۔ وہ کسی بھی وقت ان کو دبوچ سکتا ہے اور یہ عذاب عمومی بھی ہو سکتا ہے اور یہ عذاب اس خوفناک دن کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے جو اچانک نمودار ہوجائے گا اور کسی کو اس کا شعور تک نہ ہوگا۔ عالم غیب کے دروازے تو بند ہیں ، پردۂ غیب کے پیچھے کیا ہے ، کسی کان کو خبر نہیں ، کوئی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے ، لہٰذا ایک ذی ہوش شخص کس طرح غافل رہ سکتا ہے ؟
جب رسول خدا ﷺ کی رسالت کے دلائل سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ جب اس کائنات کا ذرہ ذرہ شاہد ہے کہ اس کا ایک واحد خالق ومالک ہے اور یہ لوگ اس کائنات کو بھی دیکھ رہے ہیں اور قرآن کو بھی سمجھتے ہیں کہ وہ عرب ہیں ، اور پھر بھی یہ اللہ کے ساتھ پوشیدہ یا ظاہری شرک کرتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت اس مرض اور غفلت کا شکار ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ کے لئے اس کے سوا اور کیا راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی راہ پر گامزن رہیں اور آپ کے پیروکار بھی اپنے نصب العین کی طرف بڑھتے رہیں ، وہ کسی کے عمل اور کسی کی بات سے متاثر نہ ہوں اور انحراف کرنے والوں کی طرف نہ دیکھیں۔