You are reading a tafsir for the group of verses 12:102 to 12:104
ذٰلِكَ
مِنْ
اَنْۢبَآءِ
الْغَیْبِ
نُوْحِیْهِ
اِلَیْكَ ۚ
وَمَا
كُنْتَ
لَدَیْهِمْ
اِذْ
اَجْمَعُوْۤا
اَمْرَهُمْ
وَهُمْ
یَمْكُرُوْنَ
۟
وَمَاۤ
اَكْثَرُ
النَّاسِ
وَلَوْ
حَرَصْتَ
بِمُؤْمِنِیْنَ
۟
وَمَا
تَسْـَٔلُهُمْ
عَلَیْهِ
مِنْ
اَجْرٍ ؕ
اِنْ
هُوَ
اِلَّا
ذِكْرٌ
لِّلْعٰلَمِیْنَ
۟۠
3

حضرت یوسف کا قصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا وہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن وحی ربّانی ہے، نہ کہ کلام انسانی۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے پیش آیا۔ آپ نے اس واقعہ کونہ تو بطورخود دیکھا تھا اور نہ وہ کسی تاریخ میں لکھا ہوا تھا کہ آپ اس کو پڑھیں یا کسی سے پڑھوا کر سنیں۔ وہ صرف تورات کے صفحات میںتھا۔ اور پریس کے دور سے قبل تورات ایک ایسی کتاب تھی جس کی واقفیت صرف یہودی مراکز کے چند یہودی علماء کو ہوتی تھی، اور کسی کو نہیں۔

مزید یہ کہ قرآن میں اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، بنیادی طورپر تورات کے مطابق ہونے کے باوجود، تفصیلات میں وہ اس سے کافی مختلف ہے۔ یہ اختلاف بذات خود قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ جہاں جہاں دونوں میں اختلاف ہے وہاں قرآن کا بیان واضح طورپر عقل وفطرت کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کا بیان پڑھ کر واقعی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی پیغمبرانہ سیرت کے مناسب ہے جب کہ تورات کے بیانات پیغمبرانہ سیرت کے مناسب حال نہیں ۔ اسی طرح واقعہ کے کئی بے حد قیمتی اجزاء (مثلاً قید خانہ میں حضرت یوسف کی تقریر، آیت 37-40 ) جو قرآن میں منقول ہوئی ہے۔ بائبل یا تالمود میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ حتی کہ بعض تاریخی غلطیاں جو بائبل میں موجود ہیں ان کا اعادہ قرآن میں نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طورپر بائبل حضرت یوسف کے زمانہ کے بادشاہ کو فرعون کہتی ہے۔ حالاں کہ فرعون کا خاندان حضرت یوسف کے پانچ سو سال بعد مصر میں حکمراں بنا ہے۔ حضرت یوسف کے زمانہ میں مصر میں ایک عرب خاندان حکومت کررہاتھا جس کو چرواہے بادشاہ (Hyksos kings) کہا جاتا ہے (تقابل کے ليے ملاحظہ ہو، بائبل، کتاب پیدائش)۔

حق کو نہ ماننے کا سبب اگر دلیل ہو تو دلیل سامنے آنے کے بعد آدمی فوراً اس کو مان لے گا۔ مگر اکثر حالات میں انکارِ حق کا سبب ہٹ دھرمی ہوتاہے۔ ایسے لوگ حق کو اس لیے نہیں مانتے کہ وہ اس کو ماننا نہیں چاہتے۔ حق کو ماننا اکثر حالات میں اپنے کو چھوٹا کرنے کے ہم معنی ہوتاہے، اور اپنے کو چھوٹا کرنا آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ ہر قسم کے دلائل اور قرائن سامنے آنے کے بعد بھی اپنی روش کو نہیں چھوڑتے۔ وہ اس کو گوارا کرلیتے ہیں کہ حق چھوٹا ہوجائے مگر وہ اپنے آپ کو چھوٹا کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جو دنیا میں اپنے آپ کو چھوٹا کرلے وہ آخرت میں بڑا کیا جائے گا۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے كو چھوٹا نہ کرے وہی وہ شخص ہے جو آئندہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کے لیے چھوٹا ہو کر رہ جائے گا۔