غیر مومن ہر چیز کو انسان کے اعتبارسے دیکھتا ہے اور مومن ہر چیز کو خدا کے اعتبار سے۔ حضرت یوسف کو اعلیٰ حکومتی عہدہ ملا تو اس کو بھی انھوںنے خدا کا عطیہ قرار دیا۔ ان کو تاویل اور تعبیر کا علم حاصل ہوا تو انھوںنے کہا کہ یہ مجھ کو خدا نے سکھایا ہے۔ ان کے اپنوں نے انھیں مصیبت میں ڈالا تو اس کو بھی انھوں نے اس نظر سے دیکھا کہ یہ خدا کی لطیف تدبیریں تھی جن کے ذریعہ وہ مجھ کو ارتقائی سفر کرارہا تھا۔
خدا کی عظمت کے احساس نے ان سے ذاتی عظمت کے تمام احساسات چھین ليے تھے۔ دنیوی بلندی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ان کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے — خدایا، تو ہی تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ تو ہی میرے سب کام بنانے والا ہے۔ تو دنیا اور آخرت میں میری مدد فرما۔ مجھ کو ان لوگوں میں شامل فرما جو دنیا میں تیری پسند پر چلنے کی توفیق پاتے ہیں اور آخرت میں تیرا ابدی انعام حاصل کرتے ہیں۔